ایک صاحب کو راستے میں ایک بزرگ ملتے ہیں ۔و ہ صاحب بزرگ کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آ تے اور ان کی مدد کرتے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر بزرگ خوش ہو کر انہیں دعا دیتے اور کہتے ہیں میاں تمہیں اجازت ہے کہ جو چاہو اپنے لیے مانگو لیکن تمہارے پاس صرف ایک خواہش کرنے کا آ پشن ہے۔ کافی سوچ بچار اور بیوی سے مشورے کے بعد وہ صاحب ایک خواہش کرتے ہیں کہ وہ جسمانی طور پر جیسے ہیں ہمیشہ ویسے ہی رہیں اور ان کے جوان بدن میں کوئی بتدیلی نہ ہو۔ اس خواہش کا مقصد یہ تھا کہ وہ ہمیشہ جوان رہیں۔ دعا مانگنے کے بعد وہ صاحب سو جاتے ہیں۔ دوسرے دن صبح کو جب ان صاحب کی بیوی اٹھتی ہے تو دیکھتی ہے کہ اس کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ آخر میں افسانہ نگار یہ تبصرہ کرتا ہے کہ چو نکہ موصوف نے ہمیشہ اپنے بدن کو غیر متغیر رکھنے کی خواہش کی تھی اس لیے خدا نے اسکی دعا سن لی اور اس کا بدن ہمیشہ کے لیے غیر متغیر ہو گیا۔
اس افسانے کو پڑ ھ کر ایک ایسے خدا کا تصور پیدا ہو تا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ وہ صرف ظاہری الفاظ کو سن کر فیصلے کر تا اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ خدا کی ذات کا یہ تصور صرف اس افسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں سرایت کر گیا ہے۔ ہم روزانہ اس قسم کی باتیں سنتے ہیں کہ کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نہ نکا لو کہیں قبول نہ ہو جائے، یا نا کامی پیش آ نے پر یہ کہہ دیا جا تا ہے کہ خدا کی یہی مرضی تھی۔ خدا کی بے حکمتی کی باتیں ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی مشہور ہیں۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ خدا چاہے تو کسی صالح مومن کو جہنم اور ابو جہل و ابو لہب کو جنت میں داخل کر سکتا ہے، یا پھر یہ کہ خدا نے تقدیر مقرر کر دی اور لو گوں کو مجبور محض بنا دیا ہے اس کے باوجود وہ لوگوں جنت اور جہنم میں ڈالے گا وغیرہ۔ ا س کے بر عکس ہمارا یقین ہے کہ اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے۔
چنانچہ کس طرح ممکن ہے وہ حکمت سے عاری ہو۔ اللہ کی ایک صفت ہے الحکیم۔ اس کا مطلب حکمت ، عالم، دانا، دانشور، با شعور ہستی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکیم ہونے کا مفہوم یہی ہے کہ وہ لا متنا ہی طور پر دا نا، سمجھدار اور دانش رکھنے والا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی کا ر کو بے عقل اور اناڑی ڈرائیور چلائے تو جلد یا بدیر کار کسی جگہ سے ٹکرا کر تباہ ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر یہ کا ئنات کسی غیر حکیم اور بے شعور ہستی کے ہاتھ میں ہوتی تو اب تک کئی مرتبہ تباہ ہو چکی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت، انتہائی درجے کی غایت اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن ان کا موں کی مصلحتوں کا کا مل طور پر احاطہ کر نا کسی کے بس کی بات نہیں۔ حکمت کا معا ملہ یہ ہے کہ ایک دانا شخص کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے کم از کم اتنی ہی دانائی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی دانائی اور دانش تک کوئی نہیں پہنچ سکتا چنا نچہ اس کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھ لینا ممکن نہیں۔
چنا نچہ زلزلوں سے بستیوں کا اجڑ جا نا، انسان کی معذوری ، کیڑ ے مکوڑوں کی تخلیق ، اور دیگر سمجھ میں نہ آ نے والے کا موں کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ اس حکمت کے ایک پہلو کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت موسیٰؑ اور خضر علیہ السلام کے واقعے میں سمجھا یا ہے ۔ اسی لیے اس دنیا کی بہت سے امور سمجھ سے باہر ہیںَ چنا نچہ اللہ کے بارے میں یہ تصور کر نا ایک جرم ہے اس کے فیصلے الل ٹپ ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو معاملہ سمجھ میں آ جائے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ا ور سمجھ سے با ہر ہو اس پر اللہ کی حکمت پر اجما لی ایمان اور اطمیان رکھنا ہی ایمان کا تقاضا ہے۔