جب سورۃ تبت یدا نازل ہوئی اور ابو لھب اور اس کی بیوی ام جمیل کی اس صورت میں مذمت اتری تو ابو لہب کی بیوی ام جمیل غصۃ میں آ پے سے باہر ہو گئی اور ایک بہت بڑا پتھر لے کر وہ حرم کعبہ میں گئی اس وقت حضور اکرم ﷺ نماز میں تلاوت قرآن فر ما رہے تھے اور قریب ہی حضرت ابو بکر صدیق ؓ بیٹھے ہوئے تھے امام جمیل بڑ بڑاتی ہوئی آئی اور پیارے آقا ﷺ کے پاس سے گزرتی ہوئی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس آئیں اور مار غصہ کے منہ میں جھاگ بھرتے ہوئے کہنے لگی کہ بتاؤ تمہارے رسول کہاں ہیں مجھے معلوم ہوا ہے انہوں نے میری اور
میرے شوہر کی ہجو کی ہے۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے فر ما یا کہ میرے رسول شاعر نہیں ہیں کہ کسی کی ہجو کر ے پھر وہ غیض و غضب میں بھری ہوئی پورے حرم کعبہ میں چکر لگا تی پھری اور بکتی جتی حضور ﷺ کو ڈھو نڈتے پھرتی مگر جب آقا ﷺ کو نہ دیکھ سکیں تو بڑ بڑ اتی ہوئی حرم سے با ہر جانے لگی اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے کہنے لگی کہ میں تمہارے رسول کا سر کچلنے کے لیے یہ پتھر لے کر آئی تھی مگر افسوس کہ وہ مجھے نہیں ملے حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فر ما یا کہ میرے پاس سے وہ کئی بار گزری مگر میرے اور اس کے درمیان ایک فرشتہ اس طرح حائل ہو گیا۔ کہ آنکھ پھاڑ پھاڑ دیکھنے کے باوجود وہ مجھے نہ دیکھ سکی اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہو ئی اور اے محبوب جب آپ نے قرآن پڑھا تو ہم نے آپ اور ان میں جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ ڈال دیا ( درس ہدایت) آمد میری آنکھیاری ہوتے ہوئے اور آنکھ کا پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود حضور ﷺ کے پاس ہی سے تلاش کر تی ہوئی بار بار گزری مگر وہ آپ کو نہیں دیکھ سکیں بلا شبہ یہ ایک عجیب بات ہے اور اس کو آقا ﷺ کے معجزہ کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اس قسم کے معجزات حضور ﷺ کی طرف سے بار ہا صادر ہو ئے ہیں اور بہت سے اولیاء اللہ سے بھی ایسی کرامتیں بار ہا صادر ہوئی ہیں اور اولیاء کی کرامتیں بھی ہمارے نبی ﷺ کے معجزات ہیں کیوں کہ ہر ولی کی کرامت در حقیقت اس کے نبی کا معجز ہ ہوا کرتا ہے۔