سلمان نے ایک چیونٹی سے پوچھا تمہاری سال بھر کی خوراک کیا ہے ؟ چیونٹی نے جواب دیا فقط دو دانے ۔حضرت سلیمان نے اس کے پاس دو دانے رکھ کر بل بند کر دیا سال بعد جب دیکھا تو اس نے ایک دانہ کھا لیا تھا اور ایک بچا رکھا تھا ۔حضرت سلیمان نے پوچھا ایک دانا کیوں بچا رکھا ہے چونٹی بولی پہلے میرا بھروسہ اللہ پر تھا کہ دو دانے بھی کھا لوں گی تو وہ اور دے گا ۔
اب بات انسان کی تھی اس لئے ایک بچا لیا کیا پتا پھر وہ دے یا نہ دے ۔اسی لئے ہم سب کو چاہیے کہ ہم لوگوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے لوگوں سے امید رکھنے کے بجائے ہم اپنے اللہ سے امید رکھیں جو ہماری سنتا ہے ۔کیوں کہ اول اور آخر اللہ ہے اور ہم کو اس سے ہی دعا کرنی چاہیے اور اسی سے ہی مدد مانگنی چاہیے کیونکہ اللہ کے ہاں کچھ بھی ناممکن نہیں ۔ انسانوں کے لئے ممکن اور ناممکن ہوتا ہے مگر اللہ کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا اسی لئے اپنی ہر فریاد اللہ کے آگے رکھیں اور اللہ پر یقین رکھیں ۔انشاءاللہ اگر آپ یقین کے ساتھ یہ کریں گے تو پھر جو ہوگا وہ آپ کے لئے بہترین ہوگا ۔ حضرت ابو ہرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فر ما یا: ملک الموت ایک راستے میں آیا۔
اور ایک سند میں یہ الفاظ ہیں۔ پہلے ملک الموت سامنے آ یا کر تا تھا جب مو سی ٰ علیہ السلام کے پا س آ یا تو اس سے کہا: اپنے رب کا فیصلہ قبول کر و۔ موسی ٰ علیہ السلام نے اس کی آنکھ پر ہاتھ مار کر اسے پھوڑ دیا ملک الموت اللہ کے پاس واپس گیا اور کہا: (اے اللہ) تو نے مجھے اپنے ایک بندے کی طرف بھیجا جو م ر نا نہیں چا ہتا۔ اس نے میری آنکھ بھی پھوڑ دی ہے ( اگر تیرے یہاں اس کی عزت نہ ہو تی تو میں اس پر بہت بھاری ہو تا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ دوبارہ ٹھیک کر دی اور فر ما یا: میرے بندے کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پو چھو: کیا تم زندگی چاہتے ہو؟ اگر تم زندگی چاہتے ہو تو اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھو، جتنے بالوں کو تمہارا ہاتھ ڈھانپ لے تو ہر بال کے بدلے تم ایک سال زندہ رہو گے
موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ( اے میرےرب) پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ عزوجل نے فر ما یا: پھر تم م ر جا ؤ گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: تو پھر ابھی کیوں نہیں۔ اے میرے رب مجھے ارض مقدسہ کے مقام پر م و ت دے ( ملک الموت نے انہیں ہلکا سا چھوا اور اس کی روح قبض کر لی، پھر اس کے بعد ملک الموت لوگوں کے پاس پو شیدہ آ نے لگا) رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا: واللہ اگر میں اس کے پاس ہو تا تو تمہیں اس کی ق ب ر دکھا تا سرخ ٹیلے کے پاس راستے میں اور ایک روایت میں ہے۔ کہ : سرخ ٹیلے کے نیچے حضرت ابو اما مہ رضی اللہ عنہ سے مر فوعا مروی ہے: تین آدمی ایسے ہیں جن کے فرض و نفل اللہ تعالیٰ قبول نہیں کر ے گا: (والدین کا ) نا فر مان، احسان جتلانے والا، تقدیر کو جھٹلانے والا۔
امت پر رسول اللہ کے حقوق میں ایک اہم حق آپ سے محبت کرنا ہے اور ایسی محبت مطلوب ہے جو مال و دولت سے، آل اولاد سے بلکہ خود اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو۔ یہ کمال ایمان کی لازمی شرط ہے۔ آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے نزدیک رسول کریم کی ذات گرامی ماں باپ سے، بیوی بچوں سے اور خود اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ بن جائے۔ یہ حبِ نبویؐ دین کی بنیاد اور اس کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور
وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول() سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔