بخت نصر بادشاہ نہایت نیک بخت اور صالح تھا اس نے ایک عورت سے نکاح کیا جس کی ایک لڑکی

بخت نصر بادشاہ ابتداء میں نہایت نیک بخت اور صالح تھا ۔ حضرت زکریا اور حضرت کی علیہ السلام کی نہایت اطاعت کرتا تھا ۔ اتفاق کہ اس نے ایک عورت سے نکاح کیا جس کے ہمراہ ایک لڑکی پہلے شوہر سے نہایت

ر حسین و جمیل تھی ۔ جب وہ لڑکی سن بلوغ کو پہنچی تو بادشاہ اسے خوبصورت حسینہ کے حسن کی بہار دیکھ کر اس پر فریفتہ و دیوانہ ہو گیا اور اس خوبصورت لڑکی کی ماں کو اس حسینہ کے ساتھ شادی کرنے کا پیغام دیا ۔ اس

عورت نے دل میں اندیشہ کیا کہ بادشاہ پیغمبروں کا مطیع و فرمان ہے اور یہ نکاح تو پیغمبران خدا کی شریت کے خلاف ہے وہ اسے کام کی اجازت نہیں دیں گے کے ایک ہی ، کی شادی میں ایک ساتھ مارے اور بیٹی کو دے دیا

جاۓ اس لئے اس عورت نے بادشاہ سے کہا ۔ تم اس کا حق مہر ادا نہ کرسکو گے ۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ بتاو کتنا مہر ہے جو کچھ کہو میں دونگا ۔ عورت نے کہا اس کا مہر تمہارے دونوں پیغمبروں کا سر ہے اگر تم یہ مہر ادا کرسکو

تو لڑکی حاضر ہے ورنہ اسے خوبصورت حسین – لڑکی کا نام مت لو ۔ بادشاہ نے کہا یہ بے چارے دومسکین خدا کے دوست اور بیت المقدس کے مجاور ہیں کسی کام میں دخل نہیں دیتے بلکہ ہمارے خیر خواہ ہیں ان کو بے گنا قتل کرنا

• ظلم عظیم ہے ۔ اس کے علاوہ جو کچھ مانگو وہ مجھے منظور ہے لیکن اس عورت نے کہا کہ مجھے اس کے سوا اور کوئی مہر نہیں چاہیے ۔ اب بادشاہ نے ہواۓ نفسانی سے مغلوب ہو کر اپنی فوج کو حکم دے دیا کہ دونوں

پیغمبر وے کا سرکاٹ لاؤ ۔ سپائیوں نے حکم کے 2 مطابق پہلے حضرت یحیی علیہ السلام کو بیت المقدس میں قتل کیا اور حضرت زکریا یہ حال دیکھ کر جنگل کی طرف بھاگ نکلے ۔ فوج نے تعاقب کیا اور انکو بھی جا لیا حضرت زکریا

نے ایک درخت سے التجاء کی کہ تو مجھے پناہ دے دے ۔ درخت پھٹ گیا اور حضرت زکریا اس کے اندر سا گئے اور وہ درخت دوبارہ بند ہو گیا ۔ اب فوج پریشان ہوئی کہ حضرت زکریا کہاں غائب ہو گئے ۔ لیکن شیطان نے انہیں

بتایا حضرت زکریا اس درخت کے اندر ہیں پھر شیطان نے ہی انہیں آرہ کی ترکیب بتائی ۔ اور اب آرے سے درخت چیرا گیا جب آرہ حضرت بی که سر تک پہنچا تو حضرت نے سسکی بھری ۔ حکم الہی نازل ہوااگراف کرو گے تو

پیغمبری سے خارج کر دیئے جاؤ گے ۔ تم نے ۔ غیروں سے کیوں پناہ کیوں مانگی ۔ اگر ہم سے التجاء کرتے تو کیا ہم پناہ نہیں دے سکتے تھے اور اب اس کا مزہ چکھو ۔ غرض سر سے پاؤں تک جسم چرا گیا اور حضرت زکریا نے دم نہ مارا

دونوں پیغمبر اس طرح بے دردی سے ۔ مل کیے گئے تو غضب الی نازل ہوا دن تاریک ہو گیا اور ایک بادشاہ خونخوار فوج لے کر ان پر چڑھا اور شہر کے باشندوں کو گرفتار کر لیا ۔ حضرت یبی علیہ السلام کا خون بند نہ

ہوتا تھا ۔ جب قبر میں رکھتے تھے تو قبر خون سے لبریز ہو جاتی تھی ۔ اسے بادشاہ نے قسم کھائی ے کہ جب تک حضرت کا خون بند نہ ہوگا میں قتل سے باز نہ رہوں گا ہزار ہا لوگ قتل کر دیئے گئے مگر خون بند نہ ہوا اس وقت ایک مي

حضرت یحیی کی لاش پر آیا اور کہنے لگا کہ تم پیغمبر ہو یا ظالم ہو ! ایک خون کے بدلے ہزاروں آدمی قتل ہو چکے ہیں۔اب کیا سارے جہان کو قتل کراؤ گے۔اتنا کہنا تھا کہ اس کا خون بند ہو گیا ۔ آپ کی قبر مبارک جامع دمشق میں ہے ۔

Check Also

ایک مشہور عارف تھے.وه اپنی سادگی کے عالم میں پرانے اور بوسیده لباس کے ساتھ ایک دن اپنے علاقے کے تندورچی کی دوکان پر گئےاور کہا

ایک مشہور عارف تھے.وه اپنی سادگی کے عالم میں پرانے اور بوسیده لباس کے ساتھ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *