بصرہ میں ایک انتہائی حسین و جمیل عورت رہا کرتی تھی۔ لوگ اسے شہوانہ کے نام سے جانتے تھے۔ ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ اس کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی۔اپنی خوبصورت آواز کی وجہ سے وہ گائیکی اور نوحہ گری میں مشہور تھی۔
بصرہ شہر میں غم یا خوشی کی کوئی بھی مجلس اس کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے پاس بہت دولت جمع ہو گئی تھی۔بصرہ شہر میں فسق و فجور کے حوالے سے اس کی مثال دی جاتی تھی۔ اس کا رہن،سہن امیرانہ تھا۔ وہ ہر وقت زیورات سے بنی سنوری رہتی اور بہت ہی قیمتی لباس پہنتی۔ ایک دن وہ اپنی ترکی اور رومی کنیزوں کے ساتھ کہیں جا رہی تھی۔ راستے میں اس کا گزر ایک اللہ کے ولی کے گھر کے پاس سے ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اللہ پاک کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ آپ گھر میں لوگوں کو وعظ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ آپ کے وعظ کی تاثیر سے لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور وہ بڑی زور زور سے آہ و بقا شروع کر دیتے تھے۔جب وہ عورت اپنی کنیزوں کے ساتھ وہاں سے گزرنے لگی تو اس نے گھر سے آہ و بقا کی آوازیں سنیں۔ آوازیں سن کر اسے بہت غصہ آیا اور وہ اپنی کنیزوں سے کہنے لگی کہ یہاں نوحہ کیا جارہا ہے اور مجھے اس کی خبر تک نہیں دی گئی۔ پھر اس نے گھر کے حالات معلوم کرنے کے لیئے ایک کنیز کو اندر بھیج دیا۔ وہ کنیز اندر گئی اور اندر جا کر اس پر بھی اللہ کا خوف طاری ہو گیا اور وہ وہیں بیٹھ گئی۔جب وہ واپس نہ آئی تو اس عورت نے اپنی دوسری کنیز اور پھر تیسری کنیز کو اندر بھیجا مگر وہ بھی واپس نا آئیں۔پھر تھوڑی دیر بعد اس نے چوتھی کنیز کو اندر بھیجا وہ تھوڑی دیر بعد واپس لوٹ آئی اور اس نے بتایا کہ گھر میں کسی کے مرنے پر ماتم نہیں ہورہا بلکہ اپنے گناہوں پر آہ و بقا کی جارہی ہے۔
لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ پاک کے خوف سے رو رہے ہیں۔ اس عورت نے جب یہ سنا تو ہنس دی اور ان کا مذاق اڑانے کی نیت سے گھر میں داخل ہو گئی۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی اللہ پاک نے اس کے دل کو پھیر دیا۔جب اس نے حضرت رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا تو کہنے لگی: افسوس میری تو ساری عمر ضائع ہو گئی میں نے اپنی انمول زندگی گناہوں میں گزار دی وہ میرے گناہوں کو کیوں معاف فرمائے گا۔ انہیں خیالوں سے پریشان ہو کر اس نے حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا اے امام المسلمین! کیا اللہ پاک گناہگاروں اور نافرمانوں کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ وعظ و نصیحت اور وعدے اور وعیدیں سب انہیں کیلیئے تو ہیں تاکہ وہ سیدھے راستے پر آجائیں۔اس پر بھی اس کی تسلی نہ ہوئی تو وہ کہنے لگی: میرے گناہ تو سمندر کی جھاگ اور آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے نے فرمایا: کوئی بات نہیں اگر تیرے گناہ شہوانہ کے گناہوں سے بھی زیادہ ہوں تو اللہ پاک انہیں بھی معاف فرما دے گا۔یہ سن کر اس نے چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا اور اتنا روئی کہ اس پر بے ہوشی طاری ہوگئ۔تھوڑی دیر بعد جب وہ ہوش میں آئی تو اس نے کہا: میں ہی وہ شہوانہ ہوں جس کھ گناہوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔پھر اس نے اپنا سارا قیمتی اتار کر اپنے کپڑے تبدیل کیئے اور ایک پرانا سا لباس پہن لیا اور گناہوں سے کمایا ہوا سارا مال غریبوں میں تقسیم کر دیا۔ اپنی تمام کنیزیں اور تمام غلاموں کو آزاد کر دیا اور
اپنے گھر میں مقید ہو کر بیٹھ گئی۔وہ شب روز اللہ پاک کی عبادت میں مصروف رہتی اور اپنے گناہوں پر روتی رہتی اور رو رو کر اللہ پاک کی بارگاہ میں التجائیں کرتی اے توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھنے والے اے گناہ گاروں کو معاف فرمانے والے مجھ پر رحم فرمانے والے مجھ پر رحم فرما۔ میں کمزور ہوں اور تیرے عذاب کی سختیوں کو برداشت نہیں کر سکتی اور مجھے اپنی زیارت سے مشرف فرما۔ اس نے اسی حالت میں چالیس سال گزار دیئے اور انتقال کر گئی۔یہ ہے ولی اللہ کی صحبت کا اثر۔ جو بڑے بڑے گناہ گاروں کو توبہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اگر آپ سے بھی کوئی گناہ ہو گیا ہو تو گھبرائیے مت کیونکہ اللہ پاک کا در کھلا ہے سانس بند ہونے سے پہلے توبہ کر لو۔ بے شک اللہ پاک بہت مہربان اور رحیم ہے۔دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک اولیاء اللہ کے صدقہ وسیلہ جمیلہ سے ہمیں دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔