ایک دفعہ ایک مشہور بادشاہ تھا۔ اس کے ہاں ایک جادوگر تھا جو اپنے فن میں کما ل رکھتا تھا ۔ بادشاہ کی سلطنت اسی کے جادو کے بل بوتے پر قائم تھی ۔ بادشاہ کے دشمنوں کو جادوگر اپنے جادو کے زور سے ہ ل اک کردیتا تھا۔ لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ سلطنت میں سے اگر کوئی بادشاہ سے ناراض ہوتے یا نافرمانی کرتے تو جادوگر اپنے جادو سے انکار کے رخ کو ہاں میں بدل کر بادشاہ کی طرف موڑدیتا تھا اس طرح وہ ہر کام جادو سے کرالیتا تھا ۔ جب وہ جادو گر بوڑھا ہوگیا اور اس کو اپنی زندگی سے نا امیدی ہوئی ، تو ا س نے بادشاہ سے عرض کیا: کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں ۔
میری زندگی ختم ہونے والی ہےآپ کو کوئی ذہین اور سمجھ دار لڑکا میرے حوالے کردیں۔ تا کہ میں اس کو علم سکھا دوں تاکہ پھر میرے بعد وہ آپ کی سلطنت کے نظام کو درست رکھے۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک ذہین اور سمجھدار لڑکااس کے حوالے کردیا۔ وہ لڑکا اس جادوگر کے پاس صبح شام حاضر ہونے لگا اور جادو کا فن سیکھنے لگا۔ راستے میں ایک درویش اپنے عبادت خانہ میں رہتا تھا۔ ایک دن اس لڑکے نے دیکھا: کہ بہت سے لوگ عبادت خانہ سے نکل رہے ہیں۔
اس لڑکے نے معلوم کیا کہ یہاں کون رہتا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہاں ایک عبادت گزار آدمی رہتا ہے یہ سن کر وہ لڑکا بھی اس درویش کے پاس پہنچا اور اس کی باتیں سنیں ۔ درویش کی باتوں سے اس کا دل متاثر ہوا۔ درویش نے اس لڑکے کو دین حق اور توحید کی تعلیم دینی شروع کی تو وہ لڑکا ایمان لے آیا۔ وہ لڑکا جادو گر کے پاس جاتے ہوئے راستے میں درویش کے پاس ٹھہر جاتا تھا اور دیر ہوجانے کی وجہ سے جادوگر اس لڑکے پر غصہ ہوتا تھا ور اسے م ا رتا تھا ۔آخر جادوگر نے بادشاہ کے پاس لڑکے کی شکایت کی ، بادشاہ نے لڑکے کو سمجھایا کہ جادوگر کے پاس جلدی پہنچا کرو۔
اس کے درباریوں نے کہا یہ لڑکا سویرے گھر سے آتا ہے راستے میں دیر کرتا ہے ۔ ، توبادشاہ اور جادوگروں نے یہ سوچا کہ بچہ ہے، کھیل میں لگ جاتا ہوں۔ اس لیے دونوں نے لڑکے کو خوب سمجھایا لیکن لڑکا درویش کے پاس جاتا رہا۔ ایک دن لڑکا درویش کے پاس سے ہو کر بادشاہ کے پاس واپس جارہاتھا کیا دیکھتا ے کہ کسی خطرناک جانور نے راستہ روک رکھا ہے۔ لوگ ادھر ادھر دونوں طرف سے رکے ہوئے ہیں۔ لڑکے نے دل میں خیال کیا کہ آج امتحان لیتا ہوں، کہ درویش حق پر ہے یا جادوگر حق پر ہے ؟ یہ خیال کرکے اس نے پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر اٹھایا کہ اے خدا! اگر اس درویش کا مذہب حق پر ہے۔ تو اس پتھر سے اس جانور کو ہ ل ا ک فرما اور وہ پتھر اس کو م ا ردیا اوروہ جانور پتھر لگنے کی وجہ سے فوراً م رگیا۔
لوگوں نے یہ واقعہ دیکھا تو کہنے لگے کہ اس کو جادوگری میں کمال حاصل ہوگیا ہے۔ لڑکے کی ہر جگہ تعریف ہونے لگی اور وہ بہت زیادہ مشہور ہوگیا۔ آہستہ آہستہ یہ خبر دوریش تک بھی پہنچ گئی۔یہاں تک کہ نابینا اور لاعلاج مریض اس لڑکے کی دعا سے شفایاب ہونے لگا۔ لڑکا خوب مشہور ہوگیا۔ اس نابینا آدمی نے اسی وقت مجلس میں اسلام قبول کیا اور لڑکے نے دعا کی اور اس کی آنکھوں کی بینائی واپس آگئی روزانہ کی طرح جب یہ شخص بادشاہ کی مجلس میں حاضر ہوا ، تو بادشاہ کو اس کی بینائی واپس آنے پر حیرت ہوئی ؟ اس سے پوچھا کہ میری مملکت کے تمام معالج تیر ی آنکھ کا علاج نہ کر سکے ۔
آخر تجھ کو کس سے شفاء حاصل ہوئی تو اس کے دوست نے کہا: کہ میرے پروردگار نے اپنی قدرت سے مجھے بینائی عطافرمائی۔ بادشاہ نے کہا : کہ میرے سوا تیرا پروردگار کون ہے تو اس کے دوست نے کہا: کہ میرا آپ کا اوراس ساری کائنات کا پروردگار وہ اللہ ہے۔ جس نے ساری مخلوق کو پیدا کیا۔ بادشاہ بہت زیادہ غصہ ہوااوراپنے دوست کو سخت سزا دی بادشاہ نے پھر چند آدمیوں کو حکم دیا کہ اس لڑکے کو ایک کشتی میں سوا ر کرکے دریا میں لے جاؤ۔ یہ اپنے دین سے باز آجائے تو بہتر ہے ورنہ دریامیں پھینک دو۔ چنانچہ اسکو دریا میں لے گئے اور سمجھایا لڑکے نے پھر دعا کی تو کشتی الٹ گئی۔ اور سارے سپاہی ڈوب گئے اور لڑکا صیحح سلامت واپس آگیا۔ بادشاہ نے ماجرا پوچھا تو لڑکے نے پورا قصہ بیان کردیا ۔ اس لڑکے نے کہا اے بادشاہ ! تو مجھے م ا ر نہیں سکتا۔ اگر تو میرا ق ت ل ہی کرنا چاہتا ہے تو اس کی ترکیب میں بتاتا ہوں ۔ اگر وہ ترکیب اختیار کرے گا تو تو مجھ کو ما ر سکے گا۔
بادشاہ نے ترکیب پوچھی تو لڑکے نے کہا: اس شہر کے تمام لوگوں کو شہر سے باہر ایک میدان میں جمع کر لے اور مجھ کو سولی پر چڑھا کر ایک تیر اپنی ترکش سے نکال کر کہہ کہ اللہ کے نام سے جو اس بچے کارب ہے اور وہ تیر مجھے م ا رتو میں م رجاؤں گا۔ بادشاہ نے یہی کیاتو تیر اس لڑکے کے کان اور ماتھے کے درمیان کی جگہ پر لگا۔ اس لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر پر رکھ لیا اور یہ کہتا ہوا شہید ہوگیا کہ میں اپنے پروردگار کے نام پر شہید ہو کر کامیاب ہوگیا اور اس واقعہ کو دیکھنے پر تمام لوگوں نے بلند آواز میں کہا کہ ہم اس بچے کے رب پر ایمان لائے۔
یہ سن کر بادشاہ کے درباریوں نےکہا: آپ نے ان تینوں کو ہ ل اک کر دیا ہے۔ جو آپ کے مذہب کے خلاف تھے ۔ مگر اب تو سب ہی لوگ آپ کے خلاف ہوگئے ہیں۔ یہ بات سن کر بادشاہ بہت غصہ ہوا اور شرمندگی سے چلا اٹھا اور آگ دہکانے کا حکم دے دیا۔ چنانچہ آگ دہکا ئی گئی۔ اس کے کنارے پر بادشاہ اور ا س کی سلطنت کے لوگ کرسیاں بچھا کر بیٹھ گئے ۔ اور سب کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور سپاہیوں سے کہا کہ سب سے معلو م کرو جو اپنے دین سے نہ پھرے ۔
اس کو آگ میں ڈال دو چنانچہ شاہی فرمان کے مطابق ایمان والوں کو آگ میں ڈالنا شروع کیاگیا۔ یہاں تک کہ ایک ایسی عورت کو بھی لایا گیا۔ جس کی گود میں بچہ تھا ۔ عورت کو جب آگ میں ڈالنے لگے ، تو وہ ہچکچائی بادشاہ نے کہا: کہ عورت کو رہنے دو دوپہلے اس کے بچے کو آگ میں ڈال دو۔ شاید اس طرح وہ اپنے ایمان سےہٹ جائے۔ چنانچہ اس کے بچے کو آگ میں پھینک دیا گیا۔ اللہ پاک نے بچے کو بولنے کی طاقت دی اور اس نے بلند آواز سے کہا: اماں جی آپ صبر کریںاور بلا گھبراہٹ بسم اللہ پڑھ کر آگ میں کو د پڑو یہ آگ گل و گلزار بن جائے گی۔
اور عورت یہ سن کر بغر کسی گھبراہٹ کے آگ میں کود گئی اور وہ آگ ایسی بھڑکی کہ اس نے بادشاہ اور اس کے ساتھی جو کہ کرسی پربیٹھے مظلوموں کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ سب لوگوں کو جلاکر خاک کر دیا۔ اللہ پاک نے ان مسلمانوں کو آگ میں گرنے سے پہلے ہی ان کی روح کو قبض کرلی تھیں۔ اس طرح ان کو اس آگ کی تکلیف سے اللہ نے محفوظ رکھا ور اس لڑکے کا نام عبداللہ بن تامر تھا۔ جس نے سولی پر چڑھ کر ایمان اور اسلا م پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ۔ اس حادثے میں اس ظالم بادشاہ نے تقریباً بیس ہزارآدمیوں کو آگ میں ڈال کر شہید کیا تھا ایمان پر جب ثابت قدمی کے ساتھ انسان ڈٹ جائے ، تو یقیناً اللہ کی مدد آجاتی ہے۔ لہذا وقتی آزمائشوں سے نہیں گھبرانا چاہیے بلکہ ایمان پر ثابت قدمی کا مظآہرہ کرنا چاہیے ۔ چاہے اس کےلیے جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔