شخص تجارت کی غرض سے گھر سے نکلا اور راستے میں بے شار تکلیفیں برداشت کرتے کرتے ایک جنگل سے گزرا تواس کو ایک اپانچ لومڑی زمین پر پڑی دکھائی دی ۔ وہ لومڑی ہاتھ اور پاؤں سے بالکل معذور تھی اور چیل پھر نہیں سکتی تھی ۔ لیکن جسامت سے کافی موٹی دکھائی دیتی تھی۔
اس شخص کے دل میں خیال آیا کہ یہ لومڑی تو بالکل ہی چل پھر نہیں سکتی تو آخر یہ کھاتی کہاں سے ہے ۔ وہ شخص ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اسےایک طرف سے شیر آنتاہواد کھائی دیا جو کہ ایک جانور کا شکار کر کے اسی کی طرف آرہا تھا ۔ اس شخص نے شیر کو دیکھا تو وہ خوفنزدہ ہو کر ایک قریبی درخت پر چڑھ گیا ۔ اب اس شخص نے درخت پر بیٹھے نیچے دیکھنا شروع کر دیا کہ شیر جس جانور کا شکار کر کے لایا ہے اس کولومڑی کے پاس بیٹھ کر کھاناشر وع کر دیا اور جب اس کا پیٹ بھر گیا تو وہ بچا کچا گوشت وہیں چھوڑ کر جنگل کی طرف چل پڑا ۔شیر کے جانے کے بعد لومڑی اپنے جسم کو کھسیٹتے ہوئے اس گوشت کی طرف بڑھی اور اس کو کھانا شروع کر دیا ۔ اس شخص نے جب یہ صورت حال دیکھی تو سوچنے لگا ۔ جب اللہ تعالی اس معذور . لومڑی کو بیٹھے بٹھاۓ رزق دے سکتا ہے تو پھر مجھے گھر سے نکل کر رزق کے لئے در بدر ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔ میں بھی آرام سے اپنے گھر بیٹھتا ہوں اللہ تعالی خود ہی میری روزی کا کوئی نہ کوئی سامان پیدا کرے گا ۔
یہ سوچ کر وہ شخص درخت سے نیچے اترااور سیدھا اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اور گھر جاکر ڈیرہ لگا لیا اور اس بھر وسے پر بیٹھ گیا کہ غیب سے روزی آۓ گی ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے اسے کئی دن گزر کئے مگر کسی بھی طرف سے کچھ نہ آیا ۔ وہ شخص گھبرا گیا اور کہنے لگا اے اللہ ! اس معذ ور لومڑی کو تو بیٹھے بیٹاۓ رزق دیتا ہے اور مجھے آج کتنے دن ہو کئے ہیں تو نے میری طرف کچھ بھی نہیں نبھیجا ۔ آخر یہ کیا ہے ! غیب سے ندا آئی اے بے وقوف ! ہم نے تجھے دو چیزیں دکھائی تھیں ایک معذ ور لومڑی تھیجو دوسروں کے بچے کچھے کھانے پر نگاہر کھی تھی۔اور ایک شیر تھا جو خوداپنی ہمت اور محنت سے شکار کر کے لاتا اور خود بھی کھانااور ۔ دوسرے معذ ور وں اور محتاجوں کو بھی کھلاتا۔اے نادان ! تونے اس سے یہ سبق حاصل کیا کہ خود معزور لومڑی کی طرح بن کر بیٹھ گیا ۔ جب کہ ہم نے تجھے اچھے بھلے ہاتھ پاؤں دیے اور تو اس شیر کی طرح نہ بناجو محنت کر کے خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے ۔