حضرت سید نا مالک بن فضالہ ؓ حضرت سید نا حسن ؓ سے روایت کر تے ہیں: سابقہ امتوں میں عقیب نامی ایک بزرگ لوگوں سے الگ تھلگ ایک پہاڑ ی پر اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک مر تبہ انہیں خبر ملی کہ قریبی شہر میں ایک ظ ا ل م و ج ا ب ر بادشاہ ہے جو لوگوں پر بہت ظ ل م کرتا ہے اور بلا وجہ ان کے ہاتھ پاؤں اور ناک کان وغیرہ کاٹ ڈالتا ہے جب آپ ؒ کو یہ اطلا ع ملی تو آپ ؒ کے اندر نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کا عظیم جذبہ شدت سے ابھر ا اور اپنے آپ سے کہنے لگے: مجھ پر یہ لازم ہے۔
کہ میں اس ظ ا ل م کو اللہ عزوجل سے ڈرنے کی تلقین کروں اور اسے ع ز ا ب الٰہی عزوجل سے ڈراؤں چنانچہ آپ کے عظیم جذبہ کے تحت پہاڑ سے اترے اور اس ظ ا ل م حکمران کے پاس پہنچ کر اس سے بڑے ہی جرات مندانہ انداز میں فر ما یا تو اللہ عزوجل سے ڈر وہ بد بخت و ظ ا ل م بادشاہ آ گ بگو لا ہو گیا اور بڑے متکبر انہ انداز میں گستاخانہ جملے بکتے ہوئے اس بزرگ سے کہنے لگا: اے کتے! لتیرے جیسا حقیر شخص مجھے اللہ عزوجل سے ڈرنے کا حکم دے رہا ہے میں تجھے اس گستاخی کی ضرور س ز ا دوں گا اور تجھے ایسی س ز ا دوں گا کہ آج تک دنیا میں ایسی س ز ا کسی کو نہیں دی گئی ہو گی۔ پھر اس ظالم نے حکم دیا کہ اس کے قدموں سے اس کی کھال اتارنا شروع کر و اور سر تک اس کی کھال اتار لو تا کہ یہ درد ناک ع ذاب میں مبتلا ہو اور اس کی روح تڑپ تڑپ کر تن سے جدا ہو۔
حکم پاتے ہی جلاد آ گے بڑھے۔ انہیں فوراً حکم الٰہی عزوجل پہنچا۔ اے عقیب صبر سے کام لو ہم تجھے غم و حزن کے گھر سے نکال کر راھت و آرام کے گھر میں داخل کر یں گے اور اس تنگ و تاریک دنیا سے نکال کر وسیع و عریض جنت میں داخل کر یں گے۔ حکم الٰہی سن کر خاموش ہو گئے اور اس درد ناک تکلیف کو صبر سے برداشت کرتے رہے جب ظ ا ل م و ں نے ان کی کھال چہرے تک اتار لی تو شدتِ درد سے دوبارہ ان کے منہ سے بے اختیار درد بھری آہ نکلی۔ انہیں پھر حکم الٰہی پہنچا اے عقیب ! تیری اس مصیبت پر دنیا او ر آسمان کی مخلوق ر و رہی ہے تمہاری اس تکلیف نے فرشتوں کی توجہ تمہاری طرف کر ا دی ہے۔ اس خوف سے کہ کہیں میر ی آہ وزاری سے اللہ عزوجل میری اس قوم کو ع ذاب میں مبتلا نہ کر دے میں نہیں چاہتا۔
کہ میری وجہ سے کوئی عذاب میں مبتلا ہو بالاآخر اس مرد مجا ہد کی تمام کھال اتار لی گئی لیکن اس نے دوبارہ سسکی تک نہ لی اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ تیرے جذبہ تبلیغ اور امت سے خیر خواہی کے جذبہ پر لاکھوں سلام۔ تو نے اس کے سامنے حق بات کہہ کر جہاد اکبر کیا پھر امت کی خیرخواہی کی خاطر شدید تکلیف کے باوجود تک اف تک نہ کہا اور جان دے دی اے مرد مجاہد! تیری ان پاکیزہ خصلتوں پر ہماری ہزاروں جانیں ق ر ب ا ن ہو ں۔ اللہ عزوجل تجھے ہماری طرف سے اچھی جزاء عطا فر ما ئے اور تیرے صدقے ہمیں بھی نیکی کی دعوت عام کرنے کی توفیق عطا فر ما ئے خیر خواہی امت کا عظیم جذبہ ہمیں بھی عطا فر ما ئے اور ہر وقت سنتوں کی تبلیغ کی سعادت عطافر ما ئے۔ ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں تیری سنتیں سکھا نا مدنی مدینے والے (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو۔۔۔ اور۔۔ اُن کےصدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین۔