لفظ جمعہ جمع سے مشتق ہے کہ اس دن مسلمان عبادت کے لیے بڑی مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں ۔اسلام میں یوم جمعہ کی بہت عظمت و فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے ہفتے کے دنوں کا سردار کہا گیا ہے، جس میں ا للہ تعالیٰ کی خصوصی نعمتیں، رحمتیں اور برکتیں بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” وہ بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے ، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام تخلیق کیے گئے ، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے اور اسی دن قیامت واقع ہو گی(صحیح بخاری )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا تو ارشاد فرمایا” اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جس مسلمان بندے کو وہ میسر آ جائے اور وہ کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہو ، تو وہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرے ، اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرمادیتا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس گھڑی کے مختصر ہونے کا اشارہ فرمایا“ ( بخاری و مسلم )۔
مسلم کی ایک حدیث کے مطابق وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نمازِ جمعہ کے ختم ہونے تک ہے ، اور ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق یہ گھڑی عصر سے لے کر سورج غروب ہونے تک تلاش کی جائے ۔ جمعہ کے دن ادائے شکر کے لئے نماز جمعہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے گی تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو“ ( سورة الجمعہ 9 )۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اورجس قدر ممکن ہوا پاکی حاصل کی، پھر تیل یا خوشبواستعمال کیا، پھر نماز جمعہ کے لئے روانہ ہوا اور (مسجد میں پہنچ کر) دو آدمیوں کے درمیان (گھس کر) تفریق نہ کی، پھر جتنی (نفل) نماز اس کی قسمت میں تھی اداکی، پھر جب امام (خطبہ کے لئے ) باہر آیا تو خاموشی اختیار کی، تو اس شخص کے اس جمعہ سے لے کر سابقہ جمعہ تک کے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں“۔
(صحیح بخاری) امام مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں دس دنوں کے گناہوں کی مغفرت کی بشارت ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت
امام ابوداوٴد نے ایک روایت میں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” جمعہ میں تین قسم کے لوگ حاضر ہوتے ہیں،ایک وہ شخص جو جمعہ میں حاضر ہوکرلغو گفتگو (یا لغو کام) کرتا ہے ، اس میں سے (یعنی جمعہ سے ) اس کا یہی حصہ ہے ، دوسرا وہ شخص ہے جودعا کی غرض سے حاضر ہوتا ہے ،
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر جمعہ کی ان فضیلتوں کا طالب ہے تو اس پر ان ضوابط کا اہتمام لازم ہے بصورت دیگر اسے محرومی سے بھی سابقہ ہوسکتا ہے ۔
اسی طرح کچھ افراد خطبہ کے دوران بھی گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں، ایسے لوگ جمعہ کی فضیلتوں سے نہ صرف خود محروم ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کی عبادت میں بھی خلل کا باعث بنتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا اتفاق ہے کہ جب امام خطبہ دے رہا ہو تو اس وقت چپ رہنا واجب ہے ، بلکہ خطبے کے دوران خاموش رہنے کی تاکید اس درجہ کی گئی ہے کہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے اس وقت کسی بات کرتے ہوئے شخص کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت خاموش رہنے کے لئے کہنا بھی ایک لغو حرکت ہے ، یعنی اتنا بولنے کی بھی گنجائش نہیں کہ کسی دوسرے کو خاموش رہنے کی تاکید کرے ۔
قرآن مجید فرقان حمید کی سورة الجمعہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ” جب نماز جمعہ ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تا کہ فلاح پاؤ“۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یوم جمعہ کی عبادت خصوصی اہتمام کیساتھ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ، اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ، آمین ۔