رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت ایمان اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بغض کفر ہے ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ہیں اور میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روشن چہروں والوں کے امام ہیں ، میرے بعد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر مومن کے ولی ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضٰ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حالت میں حاضر ہوئے کہ آنکھوں سے آ نسوں بہہ رہے تھے ، آکر عرض کیا ، یار سول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا ، رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو، جینا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سیکھو ، م ر ن ا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کسی آدمی نے کوئی مسئلہ پیش کیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا جواب دے رہے تھے کہ حاضرین مجلس میں سے ایک شخص بول پڑا ،
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کچھ فرما رہے ہیں اس سے یہ مسئلہ حل نہ ہو گا: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی بات نہایت تحمل کے ساتھ سنی اور فرمایا کہ اچھا تیرے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے ، اس آدمی نے اپنی رائے ظاہر کی شاہ مرادوں نے اس کا جواب پسند فرمایا اور فرمایا کہ ہاں اس کا یہی حل بہتر ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باب علم تھے اور دین دنیا کے بادشاہ تھے لیکن انہوں نے ایک دوسرے آدمی کا مشورہ خندہ پیشانی سے قبول کیا ، کوئی اور بادشاہ ہوتا تو اس کو دھکے مار کر اپنی مجلس سے نکال دیتا جس کے سر میں غرور ہے ہر گز خیال نہ کر کہ وہ سچی بات سنے گا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا پریشانیاں حالات سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہیں۔کوئی تم سے روٹھ جائے ، پھر وہی خود تم سے ملنے کو ترسے تو اسے کبھی کھونا مت ،کیونکہ وہ تم سے بہت زیادہ پیارکرتا ہے۔انسان کے چسم کا سب سے خوبصورت حصہ دل ہے ، اگر یہی صاف نہ ہو تو چمکتا چہرہ کسی کام کا نہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ایک آدمی نے گناہ کیا (راوی نے کبھی یہ الفاظ کہے کہ ایک شخص سے گناہ سر زد ہوا) تو وہ عرض گزار ہوا: اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا (کبھی یہ الفاظ کہے کہ مجھ سے گناہ ہوگیا) پس تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اُس کے رب نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا اور ان کے باعث مواخذہ کرتا ہے، لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ اس کے بعد جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ گناہ سے باز رہا، پھر اُس نے گناہ کیا (یا اس سے گناہ سرزد ہو گیا) تو اس نے عرض کیا: اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا (یا مجھ سے گناہ ہو گیا) پس مجھے بخش دے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا اور ان کے باعث مواخذہ کرتا ہے، پس میں نے اپنے بندے کو پھر بخش دیا۔ پھر وہ ٹھہرا رہا جب تک اللہ نے چاہا، پھر اس نےگناہ کیا (اور کبھی یہ کہا کہ مجھ سے گناہ ہوگیا)۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پھر عرض گزار ہوا: اے رب! مجھ سے گناہ ہو گیا یا میں پھر گناہ کر بیٹھا، پس تو مجھے بخش دے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ہے جو گناہ معاف کرتا اور ان کے سبب پکڑتا ہے، لہٰذا میں نے اپنے بندے کو تیسری دفعہ بھی بخش دیا۔ پس جو چاہے کرے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین