ایک مرتبہ حضرت خضر ؑ دریا کے کنارے بیٹھے تھے اتنے میں کسی سائل نے آپ سے آکر سوال کیا کہ میں آپ سے اللہ کے واسطے سوال کرتاہوں مجھے عنایت فرمائیے یہ سن کر آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی جب کچھ ہوش ہوا تو فرمانے لگے بھائی میں تو صرف اپنی جان اور مال کا مالک ہوں۔ تم نے مجھ سے اللہ کے واسطے سوال کیا ہے لہذا میں اپنی جان اور ذات تمہارے حوالے کرتا ہوں تم جس طرح چہو اس کو استعمال میں لاؤ بازار میں فروخت کرکے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھاؤ چنانچہ سائل انکو بازار لے گیا
اور ایک شخص سا حمہ بن ارقم کے ہاتھ فروخت کردیایہ خریدار انکو اپنے گھر لے گیا جس کی پشت پر اس کا ایک با غ تھا چنانچہ ساحمہ نے حضرت خضر ؑ کو ایک کدال دے کر کہا اس سامنے والے پہاڑ جو تین مربع میل میں واقع تھا مٹی کاٹ کاٹ کر باغ میں ڈالتے رہو یہ حکم دے کر ساحمہ اپنی ضرورت سے کہیں چلا گیا حضرت خضرؑ مٹی کاٹ کاٹ کر باغ میں ڈالنے لگے جب ساحمہ واپس آیا تو اس نے گھر والوں سے دریافت کیا کہ تم نے غلام کو کھانا بھی کھلایا ہے نہیں گھر والوں نے جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ غلام کہا ہے یہ سن کر جب ساحمہ خود کھانا لے کر باغ میں آیا تو دیکھا کہ وہ غلام یعنی حضرت خضر ؑ تمام پہاڑ کی مٹی کاٹ کر باغ میں ڈال چکے تھے
اور اب کام سے فارغ ہوکر اپنے حقیقی مولیٰ کی عبادت میں مصروف تھے ۔ یہ دیکھ کر ساحمہ کو بڑا تعجب ہوا اور اس نے پوچھا کہ یہ تو بتائیے کہ آپ کون ہیں یہ بات سن کر حضرت خضرؑ پر کچھ بے ہوشی سی طاری ہوگئی اور پھر آفاقہ ہونے پر فرمانے لگے بھائی میں خضر ہوں۔جس کو سن کر ساحمہ کے ہوش اڑ گئے کہ تونے یہ کیا ان کو غلام بنا کر ایسے کام پر لگایا یہ تو انتہائی گستاخی ہوئی پھر ہوش سنبھلنے پر ساحمہ نے توبہ کی اور اللہ سے عذر خواہی کیساتھ حضرت خضرؑ کو آزاد کردیا اور بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ اللہ مجھ سے اس کا مواخذہ نہ فرمائیے گا کیونکہ میں انکو جانتا نہیں تھا اور اس کے بعد حضرت خضرؑ نے دعا فرمائی اور سجدہ شکر بجا لایا کہ اے پروردگار میں تیرے ہی حق میں غلام بنا اور تیرے ہی حق میں آزاد ہوا اس پر تیرا شکر گزار ہوں بعد ازاں واپسی کی اجازت لیکر جب دریا پر واپس آئے تو دیکھا ایک شخص کھڑا دعا کررہا ہے
کہ اے میرے پروردگار حضرت خضر ؑ کو غلامی سے رہائی عطاء فرمادے اور انکی توبہ قبول فرما لے حضرت خضر ؑ نے یہ دیکھ کر اس شخص سے دریافت کیا کہ آخر آپ کون ہوں اس شخص نے جواب دیا کہ شاذون ہوں آپ کون ہیں آپ نے فرمایا میں خضر ہوں اسکے بعد شاذون نے کہا اے خضر تم نے اپنے لیے رہنے کا مکان بنا کر دنیا طلب کی ہے کیونکہ حضرت خضرؑ کا دریا کے کنارے پر ایک عبادت خانہ تھا پس یہ سن کر وہ فوراً میدان میں نکل آئے اور وہی ں اللہ کی عبادت میں مصروف ہوگئے اسکے بعد حضرت خضر ؑ نے اسی جگہ ایک درخت لگایا اور اس کے سایہ میں عبادت شروع کی تو ہاتف کی آواز آئی اے خضر جب تم نے درخت کے سایہ میں سجدہ کیا تو تم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم مجھے دنیا کی محبت میں رضا مندی نہیں ہے اس کے بعد حضرت خضرؑ نے شاذون فرشتہ سے کہا کہ اے شاذون دعا کرو اللہ میری توبہ قبول فرمائے چنانچہ شاذون نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے شاذون کی دعا کی برکت سے حضرت خضرؑ کی توبہ قبول فرمائی۔