حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا درخت کاٹنے والے کے ساتھ آخرت میں کیا ہوگا

ﷲتعالیٰ نے اس زمین کودرختوں کی سرسبزی وشادابی سے مزین کیاہے اورجنگلوں کی ہریالی سے اس کرہ ارض کو حسن و جمال بخشاہے اورقرآن مجید میں اس کاذکرکرتے ہوئے فرمایا: ’’بھلاوہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیداکیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایااور پھراس کے ذریعے خوشنما باغات(جنگلات)اگائے جن کے درختوں کااگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟؟کیاﷲتعالیٰ کے سوا کوئی دوسرارب بھی(ان کاموں میں شریک)ہے؟؟(نہیں)بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کرچلتے ہیں۔‘‘(النمل60)۔ چنانچہ یہ درخت بھی اپنے وجود کے شکرانے کے طورپر ﷲتعالیٰ کے سامنے سربسجودہوتے اور سجدہ کرتے ہوئے مراسمِ عبودیت بجالاتے ہیں،جس پر قرآن مجید نے کہا : ’’ستارے اور درخت (سب)ﷲتعالیٰ کے سامنے سجدہ ریزہیں۔

سورہ حج،آیت18 میں ﷲتعالیٰ فرماتاہے: ’’کیاآپ دیکھتے نہیں کہ ﷲتعالیٰ کے آگے سربسجودہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ،سورج چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان(بھی)۔‘‘ اسی طرح سورۃ لقمان،آیت27 میں ﷲتعالیٰ نے اپنی شان خداوندی کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا: ’’زمین میں جتنے درخت ہیں وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر(دوات بن جائیں)جسے7 مزید سمندر روشنائی فراہم کریں تب بھی ﷲتعالیٰ کی نشانیاں(لکھتے ہوئے)ختم نہ ہوں،بے شک ﷲتعالیٰ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘ سورۃ یٰسین،آیت80 میں ﷲتعالیٰ نے درختوں سے ایندھن کاکام لیتے ہوئے کہا: ’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے ہرے بھرے درخت سے آگ پیداکردی اور تم اس سے اپنے چولھے روشن کرتے ہو۔‘‘درختوں کے بابرکت ہونے کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے۔

کہ ﷲتعالیٰ نے اپنے نور کی تفہیم کے لئے ایک مقدس درخت کی مثال دی اور سورۃ نور،آیت 35میں فرمایا : ’’ﷲتعالیٰ آسمانوں اور زمین کانورہے،اس کی نورکی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں رکھا چراغ ہو،چراغ فانوس میں دھراہو،فانوس کاحال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتاہوا ستارہ ،اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیاجاتاہوجو نہ شرقی ہو نہ غربی ،جس کاتیل آپ ہی آپ بھڑکاپڑتاہو۔‘‘ کتنے ہی انبیاء علیہم السلام ہیں جن کی حالات زندگی میں درختوں کا کثرت سے ذکر ملتاہے۔سب انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت میں جگہ ملی تو ﷲ تعالیٰ نے حکم دیا: ’’پھرہم نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا۔

کہ آپ اور آپ کی زوجہ دونوں جنت میں رہواوریہاں بفراغت جوچاہو کھاؤ مگراِس درخت کارخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘(البقرہ35)۔ پھرشیطان نے ان پر حملہ کیا اور کہا: ’’پھرشیطان نے ان کو بہکایاتاکہ ان کی شرمگاہیں جوایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ،ان کے سامنے کھول دے،شیطان نے ان سے کہا :تمہارے رب نے تمہیں جواس درخت سے روکاہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤیاتمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے ،اور اس نے قسم کھاکران سے کہا کہ میں تمہاراسچاخیرخواہ ہوں،اس طرح دھوکادے کر رفتہ رفتہ دونوں کواپنے ڈھب پر لے آیا،آخرکار جب انہوں نے اس درخت کامزاچکھاتوان کے سترایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اوروہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے ،تب ان کے رب نے انہیں پکارا کہ میں نے تمہیں اس درخت سے روکانہ تھا اور نہ کہاتھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔

Check Also

ایک مشہور عارف تھے.وه اپنی سادگی کے عالم میں پرانے اور بوسیده لباس کے ساتھ ایک دن اپنے علاقے کے تندورچی کی دوکان پر گئےاور کہا

ایک مشہور عارف تھے.وه اپنی سادگی کے عالم میں پرانے اور بوسیده لباس کے ساتھ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *